۱۳۸۶ اسفند ۲۰, دوشنبه

سیاسی مسائل، حل مفاہمت میں



مری میں ماضی میں بھی بہت اہم سیاسی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ راولپنڈی کے شمال میں واقع پر فضا مقام کوہ مری پر ایک ایسے سیاسی سفر کا آغاز ہوا ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس کی منزل پاکستان میں ایک مستحکم جمہوری نظام ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ توقع کس حد تک پوری ہوتی ہے۔
مری میں اس سے قبل ایک اور تاریخی سفر کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں فوری طور پر تو ون یونٹ کا قیام عمل میں آیا اور وقت گزرنے کے ساتھ، مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ یعنی انیس سو پچپن کا معاہدہ مری جس کے تحت حسین شہید سہروردی کی قیادت میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کے باوجود اسمبلی کی نشستوں کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کا معاہدہ جو ’معاہدہ مری‘ کہلایا۔
مگر سن دو ہزار آٹھ کا اعلان مری شاید ایک نئے تاریخی سفر کا آغاز ثابت ہو۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیس حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجابی زبان بولنے والوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھرنے والی مسلم لیگ (ن) دونوں نے ملک میں ایک نئے سیاسی سفر کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد، میاں نواز شریف، نے لندن میں تیار ہونے والے میثاق جمہوریت کو اعلان مری کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ آمریت کا وقت ختم ہوگیا ہے اور جنرل مشرف آرام کریں۔ پرویز مشرف کے خلاف اپنی راویتی مخالفت کا اظہار تو نواز شریف کی سیاست کا بنیادی اصول ہے۔
اس سخت رویے کے باوجود نواز شریف نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ان کے ارکان جو پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کی زیر قیادت بننے والی کابینہ میں شامل ہوں گے صدر ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف کے سامنے حلف اٹھائیں گے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب ایک ’سٹیٹس کو‘ کو تسلیم کرنا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آرہا ہے دو نومبر والی عدلیہ بھی بحال ہو گی جس کے لئیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائیگی۔ وکلاء برادری کی جانب سے اس اعلان کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
اعلان مری سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری نے ملک بھر کے تقریباً تمام بڑے سیاسی اکابرین اور رہنماؤں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جس سے یہ نظر آرہا ہے کہ وہ قومی اتفاق رائے والی ایک منتخب حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نواز شریف سے بھی ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا اور وہ کوشش کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) بھی ان کی متوقع وفاقی حکومت میں شامل ہو تاکہ نون لیگ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی طرح پیپلز پارٹی پر اقتدار سے الگ بیٹھ کر صرف تنقید نہ کر پائے۔

نواز شریف نے پہلے پہل تو بہت کوشش کی کہ وہ آصف زرداری کے اس مطالبے کو پورا نہ کریں، کیونکہ وہ بظاہر عدلیہ کے معاملے میں کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر جلد ہی انہیں بھی یہ احساس ہو گیا کہ زمینی حقائق سے انہیں مفاہمت کرنا ہوگی۔ اور انہوں نے یہ مفاہمت کی۔
اب اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل تکثیریت (Plurality) میں ہے۔ فوج کا کردار، سیاستدانوں کے رویے، سول سوسائیٹی کی کاوشیں، وکلاء کی تحریک، ججوں کا قضیہ، بلوچستان کے ’علحیدگی پسند‘ جاگیردار، ان تمام کے علاوہ ملک کی ایک حقیقت جو فی الحال پردہ سیمیں سے اوجھل لگتی ہے یعنی سسکتی اور غریب عوام جنہیں اس وقت اگر فوری طور پر کچھ درکار ہے تو صرف ایک سانس لینے کا ایک لمحہ۔
باوجود اس کے ان سب کے درمیان کئی باتیں متنازعہ ہیں، مگر مسلسل لڑائی کےلیے فی الحال ان میں سے کوئی بھی آمادہ نظر نہیں آتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سبھی زخمی ہیں۔ بہر حال زخمی ہوں یا کچھ اور بات ہو، حقیقت کا ادراک کرلینے سے بات آگے بڑھانے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اور اعلان مری میں جس طرح کی بردباری کا مظاہرہ کیا گیا ہے غالباً اس وقت پاکستان کو اسی کی ضرورت ہے۔
مری میں جمع ہونے والے پاکستان کے یہ سیاسی زعما اشتراک عمل کےلئے مبارک باد کے مستحق ضرور ہیں مگر یہ شائد اس سے بھی زیادہ لائق تحسین ہوتے اگر یہ کور کمانڈروں کے ایک سو ساتویں اعلان راولپنڈی سے قبل آپس کے معاملات پر زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ایک دو سرے سمیت دیگر مقتدر قوتوں کے ساتھ بھی مفاہمت خود سے کرتے ۔
اعلان راولپنڈی کے بعد اعلان مری کی حیثیت یہی اشارہ دیتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے کچھ زیادہ سبق حاصل نہیں کیا ہے

bbc

هیچ نظری موجود نیست: