۱۳۸۶ اسفند ۲۰, دوشنبه

بلوچستان اسمبلی اب کیا کر پائے گی؟



آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب ہونے والے ممبر پارلیمان اسمبلی میں کیا قانون سازی کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سابقہ پانچ سالہ دور میں بلوچستان اسمبلی عوام کے لیے کتنی موثر رہی اس کا اندازہ تو اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ سالوں میں ایک سو سے زیادہ قرار دادیں منظور ہوئی ہیں لیکن کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ فوج اور خفیہ اداروں کا کردار جب تک سیاست سے حقیقی معنوں میں ختم نہیں ہوگا صورتحال میں بہتری کی امید نہیں ہے۔
بلوچستان میں انتخابات کے بعد نو منتخب اراکین اسمبلی ان دنوں حکومت سازی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور تقریباً تمام کی یہی خواہش ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بن کر وزیر بنے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اسد بلوچ نے تو صاف صاف کہا ہے کہ وہ حزب اختلاف میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے نہیں بیٹھیں گے۔
اگر بلوچستان اسمبلی کی گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پائی۔ بلوچستان اسمبلی سے گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی ایک سو سے زیادہ قرار دادیں منظور ہوئی لیکن عمدرآمد نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔
نینشل پارٹی کے رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی جان محمد بلیدی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی پالیسی مختلف تھی اور بلوچستان اسمبلی کا کردار یکسر مختلف رہا ہے۔
بلوچستان اسمبلی سے چھاؤنیوں کے قیام اور فوجی آپریشن کے خلاف قرار دادیں منظور ہوئیں، اس کے علاوہ گوادر کے حوالے سے قرارد کامیاب ہوئی کہ بلوچستان حکومت کو اس کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے، سونے اور چاندی کے منصوبے کے حوالے سے قرار داد منظور ہوئی کہ اس میں بلوچستان کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے جو اب کم کر کے صرف دو فیصد کر دیا گیا ہے، اسی طرح سوئی گیس کی رائلٹی اور قومی مالیاتی کمیشن میں بلوچستان کے حصے کے حوالے سے قرار دادیں منظور کی گئیں لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔
مسلم لیگ قائد اعظم سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے بی بی سی کو بتایا ہے بلوچستان اسمبلی سابقہ پانچ سالہ دور میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پائی۔
بلوچستان میں اب نومنتخب اراکین اسمبلی کی قانون سازی کے حوالے سے کوئی واضح ترجیحات نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزارت اعلی کے امیدوار نواب اسلم رئیسانی اب بلوچستان کے تمام مسائل حل کرنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جب اسرائیل اور وزیرستان ایجنسی میں طالبان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو بی ایل اے، بی آر اے اور بی ایل ایف کے لوگ ان کے بھائی ہیں ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی۔ وہ خود ان سے بات کریں گے اور ان کے تحفظات دور کریں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکے تو وہ خود حکومت چھوڑ دیں گے۔‘
اسلم رئیسانی نے ان اراکین کو حکومت میں شامل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا جو بلوچستان کے فوجی آپریشن میں ملوث رہے ہیں لیکن گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور انھیں وزارت بھی دی جائے گی۔
بلوچستان نینشل پارٹی کے جنرل سیکرٹری حبیب جالب ایڈووکیٹ کے مطابق جب تک فوج اور خفیہ اداروں کا عمل دخل جاری رہے گا اسمبلیاں موثر کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ کے مطابق اگر موجودہ اسمبلیاں بلوچستان یا پاکستان کے مسائل حل نہ کر پائیں تو حالات انتہائی خراب ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین طلباء اور سیاسی کارکن فوجی آپریشن لاپتہ افراد کی بازیابی اور گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرے کرتے رہے۔ اس کے علاوہ لوگ بے روزگاری کے مسائل اور مہنگائی کے حوالے سے چلاتے رہے لیکن کہیں کسی کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی ہے۔
bbc

هیچ نظری موجود نیست: