۱۳۸۶ اسفند ۵, یکشنبه

بلوچستان:توقعات اور مسائل



بلوچستان میں حالیہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سے لوگوں کی توقعات کہیں زیادہ ہوں گی اور نئی حکومت کو ابتداء سے ہی مختلف مسائل کا سامنا ہو گا جن میں سب سے اہم مبینہ فوجی کارروائی کو روکنا، لاپتہ افراد کو منظرعام پر لانا،گرفتار قائدین اور کارکنوں کو رہا کرنا اور برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنا ہوگا۔
مرکز اور ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس پسماندہ صوبے میں کونسی جماعت حکومت قائم کرے گی اور وزیراعلٰی کون ہوگا۔
کوئی بھی جماعت حکومت قائم کرے عام لوگ بلوچستان میں مبینہ فوجی کارروائی ختم کرنے اور لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کے علاوہ سیاسی قائدین اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کوئٹہ کچہری میں موجود وکلاء اور شہر میں اساتذہ نے پوچھے جانے پر کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ غلط فہمی نہیں بلکہ جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہے جب تک بلوچوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جائیں گے یا انہیں مطمئن نہیں کیا جائے گا تو بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اب بندوق کے استعمال کے دھندے پرانے ہو چکے ہیں۔
عام لوگوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بنیادی مسائل کا حل چاہتا ہے مثلاً مہنگائی پر قابو، پانی، بے روزگاری کا حاتمہ اور بہتر تعلیمی ادارے قائم کرنا۔
بلوچستان میں یوں تو کشیدگی کافی عرصہ سے پائی جاتی ہے لیکن صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں مبینہ فوجی کارروائی شروع کی گئی۔
اس بارے میں مارچ دو ہزار پانچ کو نواب اکبر بگٹی نے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ بڑی تعداد میں فوجی بمعہ بھاری اسلحہ کے سوئی میں داخل ہو رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوستی کے لیے نہیں آ رہے ۔
صوبے میں مبینہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو کئی ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا اور اس ساری صورتحال کے دوران بلوچستان بھر میں ہنگامے اور مظاہرے کیے گئے۔

بلوچستان اسمبلی نے چھاؤنیوں کے قیام کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد بھی منظور کی گئی لیکن اس کے باوجود چھاؤنیاں قائم کی گئیں۔
لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کے علاوہ مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے لیکن کوئی حل نہیں نکالا گیا۔
اس تمام صورتحال کے حوالے سے بزرگ سیاستدان اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اب سیاسی جماعتیں بلوچستان کا مسئلہ حل کر پائیں گی ۔
حکومت سازی میں اس وقت سب سے زیادہ متحرک پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان کا مسئلہ ضرور حل کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے نتائج اور سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت نئی حکومت سے لوگوں کی توقعات کہیں زیادہ ہیں اور یہ توقعات صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔

urdu bbc

هیچ نظری موجود نیست: